جمعه 15/نوامبر/2024

فلسطینی جمہوری عمل پر شب خون کی داستان

بدھ 12-ستمبر-2007

غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں جمہوری عمل پر شب خون مارے جانے کی داستان صدارتی اتھارٹی اور سرکاری میڈیا کا کردار بیان کئے جانے کے بغیر ادھوری ہے- اسلامی تحریک مزاحمت (حماس )نے 2006ء کے پارلیمانی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد حکومت بنائی- تاہم اس کی کوشش رہی کہ فلسطین کے گھمبیر مسائل کے حل اور قابض اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے لئے قومی حکومت تشکیل دی جائے- طویل مذاکراتی عمل کے بعد فتح اور حماس کے درمیان میثاق مکہ معاہدہ طے پاگیا جس کے نتیجے میں قومی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا- قومی حکومت بنے ابھی تین ماہ کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے 14جون 2007ء کو اسے تحلیل کرکے ایمرجنسی حکومت کا اعلان کردیا سلام فیاض کو ایمرجنسی حکومت کا وزیراعظم بنادیا- حماس نے محمود عباس کے غیر  آئینی اقدام کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا- اس دوران فتح کا انقلابی ٹولہ محمود عباس کی  شیر باد سے غزہ کی پٹی کے امن کو غارت کرنے کی سازش میں مصرو ف رہا- وہ حماس کی حکومت کو ناکام بنانا چاہتاتھا- آخری حربے کے طور پر حماس کو انقلابی ٹولے کی سرکوبی کرنا پڑی اور اسے غزہ کی پٹی سے نکال باہر کیاگیا- انقلابی ٹولے کی بے دخلی کے بعد غزہ کی پٹی پر حماس کا مکمل کنٹرول ہے جبکہ مغربی کنارے میں محمود عباس کی جانب سے تشکیل دی جانے والی ایمرجنسی حکومت قائم ہے جس کے وزیراعظم سلام فیاض ہیں-
 عرب لیگ کی طرف سے 26جنوری 2006ء میں حما س کی حکومت تشکیل دئیے جانے سے لے کر 14جون 2007ء میں محمود عباس کی جانب سے قومی حکومت کو تحلیل کئے جانے تک کے عرصے میں ہونے والے واقعات کے حقائق کی چھان بین کے لئے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے- حماس کی جانب سے کمیٹی کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں فلسطینی سیکورٹی فورسز صدارتی گارڈ اور فتح کے مسلح افراد کی کارروائیوں کا ذکر کیا گیا- ان کارروائیوں میں حماس کے 80کارکنان کو شہید کیاگیا- انتظامی طور پر وزیراعظم کے اختیارات کم کردیئے گئے- سرکاری میڈیا پر حماس کی حکومت کے خلاف افواہیں پھیلائی گئیں- انتظامی تبدیلیوں کا کوئی منطقی اور قانونی جواز نہیں تھا- فلسطینی صدر محمو دعباس کی طرف سے انتظامی تبدیلیوں کا مقصد اختیارات پر قبضہ اور تمام فیصلوں کا اختیار اپنے ہاتھ میں لیناتھا- حماس کی حکومت کو اپنے منشور کے مطابق کام کرنے دینے کی بجائے اسے انتظامی تفاصیل کی پیچیدگیوں میں ڈالنے کی سازش کی گئی-
فلسطینی صدر محمود عباس نے حماس کی حکومت تشکیل پانے سے پہلے ہی وہ اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے جو انہیں سابق فلسطینی صدر یاسرعرفات کے دور میں 2003ء میں وزیراعظم کی حیثیت سے حاصل تھے- فلسطین کے 2006ء کے پارلیمانی انتخابات میں حماس کی بھاری اکثریت سے کامیابی کے فوراً بعدانہوں نے اس قانون ساز اسمبلی کا غیر  آئینی اجلاس بلایا جس کی مدت ختم ہوچکی تھی- اجلاس میں متعدد صدارتی  آرڈیننسز کی اسمبلی سے توثیق کرائی اور  آئین میں ایسی ترامیم کی گئیں جس کے ذریعے متعدد اختیارات محمود عباس کو حاصل ہوگئے- انہوں نے صدارتی  آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت سیکورٹی فورسز صدر کو براہ راست جوابدہ ہوں گی- سیکورٹی فورسز کے حوالے سے تمام اختیارات صدر کے پاس ہوں گے- فروری 2006ء کے پہلے ہی ہفتے میں صدارتی اتھارٹی نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اہم اور حساس عہدوں پر تبدیلیاں کیں اور مختلف پوسٹوں پر اپنے وفادار ڈائریکٹر اور ملازمین تعینات کئے –
فلسطینی صدر نے 14فروری 2006ء کو میڈیا کے حوالے سے صدارتی  آرڈیننس جاری کیا جس کے ذریعے ٹی وی اور ریڈیو سمیت تمام نشریاتی ادارے وزارت اطلاعات و نشریات کی بجائے صدارتی دفتر کے کنٹرول میں دے دیئے گئے اور سرکاری خبر رساں ایجنسی ’’وفا‘‘وزارت اطلاعات و نشریات کی بجائے پی ایل او کی تنظیم کے زیر انتظام کردی گئی- واضح رہے کہ پی ایل او پر فتح کا قبضہ ہے-
 اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے محمود عباس نے غزہ کی پٹی میں حفاظتی فورسز کے ڈائریکٹر رشید ابوشباک کو ترقی دے کر مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کی اندرونی حفاظتی فورسز کا ڈائریکٹر جنرل بنادیا- پانچ مارچ 2006ء کو ایک اور صدارتی حکم نامے کے ذریعے راہداریوں اور سرحدوں کے ادارے کو انتظامی اور مالی طور پر مستقل ادارہ بنادیاگیا، یہ ادارہ براہ راست صدر کے زیر کنٹرول ہوگا- کھیلوں اور نوجوانوں کے امور کے سابق وزیرصخر بسیسو کو راہ داریوں اور سرحدوں کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کردیا گیا- اگست 2006ء میں سلیم ابو صفیہ کو سرحدوں کا دوبارہ ڈائریکٹر جنرل بنادیاگیا- جبکہ  انتخابات میں حصہ لینے کے باعث وزیر داخلہ نے اسے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے برطرف کردیاتھا-
 محمو دعباس نے 21اپریل 2006ء کو منتخب وزیر داخلہ سعید صیام کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جو انہوں نے جمال ابو سمہدانہ کو وزارت میں جنرل کنٹرولر بنانے اور ایگزیکٹو فورسز کی تشکیل دینے کے متعلق کیاتھا-
وزیر داخلہ کے علم میں لائے بغیر 13اپریل 2006ء کو فوجیوں کی ترقیوں، ریٹائرمنٹ اور دیگر امور کے حوالے سے افسران کمیٹی تشکیل دی گئی- اس کمیٹی کے بارے میں وزیرداخلہ کو ذرائع ابلاغ سے پتہ چلا جبکہ وزیر داخلہ ان امور کے ذمہ دارہیں-  آئین وقانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 13دسمبر 2006ء کو صدر محمود عباس نے اپنے قریبی ساتھی کو بجلی اور قدرتی وسائل کے محکمے کا ڈائریکٹر تعینات کرنے کا حکم جاری کیا- جبکہ  آئین کے مطابق اس تعیناتی کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہے- محمود عباس نے 2007ء کے اوائل میں وزیرداخلہ کی تشکیل کردہ ایگزیکٹو فورسز کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا فرمان جار ی کیا- حالانکہ ایگزیکٹو فورسز حماس اور فلسطینی صدر کے درمیان باہمی مفاہمت کے بعد تشکیل پائی تھی- فلسطینی صدر نے 18 مارچ 2007ء کو قومی سلامتی کونسل بنانے کا دوبارہ فیصلہ کیا اور محمد دحلان کو کونسل کا مشیر خاص مقرر کردیا- صدر کا یہ آرڈیننس اس آئین کی صراحتاً خلاف ورزی تھا جس کے مطابق ایک شخص بیک وقت دو عہدے نہیں رکھ سکتا- قابل ذکر بات یہ ہے کہ محمد دحلان مختلف اداروں کی جانب سے تنقید اور الزامات کی زد میں تھے اور ان کا دور متنازعہ رہا ہے-
فلسطینی اتھارٹی نے حماس کی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے صرف انتظامی اور قانونی خلاف ورزیاں ہی نہیں کیں بلکہ مالی طور پر اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں- فلسطینی وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ نے 5 اپریل 2006ء کو کابینہ کے پہلے اجلاس میں واضح کیا کہ وزیر مالیات کو جب وزارت کا قلمدان سونپا گیا تو خزانہ خالی تھا- حماس کی حکومت نے جو رقوم اکٹھی کیں انہیں وزارت مالیات منتقل کرنے کے راستے میں صدارتی دفتر نے انتظامی رکاوٹیں ڈالیں اور حماس کی حکومت کے خلاف عائد معاشی ناکہ بندی میں حصہ لیا- امدادی رقوم حماس تک پہنچنے میں رکاوٹ ڈالی- صدارتی اتھارٹی نے جنوری 2007ء میں اسرائیل سے منجمد فلسطینی محصولات حاصل کیے- لیکن ملازمین کو تنخواہیں نہ دی گئیں-
 صدارتی دفتر نے سرکاری ذرائع ابلاغ کے ذریعے حماس کی دونوں حکومت کے خلاف افواہیں پھیلانے اور اسے بدنام کرنے کی مہم جاری رکھی- سرکاری ٹی وی نے منتخب حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی بجائے اسے بدنام کرنے اور جماعتی تعصب پیدا کرنے کی پالیسی اپنائی- فلسطینی ویب سائٹس اور نشریاتی اداروں نے 5 مارچ 2006ء کو انکشاف کیا کہ حماس کی حکومت کے خلاف محاذ کھولنے اور اسے بدنام کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے-

مختصر لنک:

کاپی