چهارشنبه 30/آوریل/2025

انڈین مسلم وفد کا دورۂ اسرائیل

پیر 20-اگست-2007

امریکن جوئش کمیٹی (اے جے سی) کی اس دعوت کا مقصد برصغیر میں آباد مسلمان آبادی تک رسائی کا حصول اور یہودی کمیونٹی کے اعتدال پسند رخ کو ان کے سامنے پیش کرنا ہے۔

اسرائیل کا دورہ کرنے والے اس وفد میں شامل ہندوستان کی مساجد کے اماموں کی تنظیم کے جنرل سیکرٹری مولانا عمیر الیاسی کا کہنا تھا کہ’ہم یہاں بذات خود زمینی حقائق کا جائزہ لینے آئے ہیں۔ ہم فریقین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلہ کو پرامن طریقے اور مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ’ہم دونوں جانب آباد لوگوں سے ملاقات میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ہندوستانی مسلمان اس مسئلے کے حل میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں‘۔

مسلم رہنماؤں کے دورۂ اسرائیل پر ہندوستان کے اندر مسلم ذرائع ابلاغ میں ہونے والی تنقید کے حوالے سے نظام الدین میں امیر خسرو درگاہ کے سجادہ نیشن پیر خواجہ افضل نظامی کا کہنا تھا کہ’ کیا ہندوستانی رواج میں دو فرقے آپس میں مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر بات نہیں کرتے۔ اگر ہم اس مسئلے پر کوئی بات نہیں کریں گے اور چیزوں کو خود اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھیں گے تو ہمیں کس طرح اس بات کا علم ہو گا کہ درحقیقت ہو کیا رہا ہے؟

ہندوستانی وفد سے فلسطین کے نائب وزیر خارجہ احمد صبح کی سربراہی میں ملاقات کرنے والے وفد نے اسرائیل کی اعتدال پسند رخ کو پیش کرنے کی کوششوں اور ہندوستان کے مسلمانوں کو اسرائیل کے دورے کی دعوت دیے جانے پر بھرپور خفگی کا اظہار کیا۔

اس سوال پر کہ بھارت کی مسلمان قیادت مسئلہ فلسطین کے حل میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے، فلسطین کے نائب وزیر خارجہ نے دورے پر آئے وفد کو اسرائیل سے فاصلہ رکھنے کا مشورہ دیا۔

سنیچر کو رملہ میں انڈین وفد سے ملاقات کے دوران فلسطین کے نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ’اسرائیل امن سے حاصل ہونے والے فوائد سے اس وقت تک مستفید نہیں ہو سکتا جب تک وہ خود اس پر عمل نہ کرے۔ ہم دنیا بھر کے ممالک کو یہ بتاتے رہے ہیں کہ وہ اسرائیل سے اس وقت تک کوئی روابط نہ رکھیں جب تک وہ فلسطینیوں کو ان کا اخلاقی حق نہیں دے دیتا‘۔

اس وفد میں شامل ایک اور فرد جمال جمعہ نے بھارت کی جانب سے ایک یہودی ریاست سے دفاعی تعلقات استوار کیے جانے کی کوششوں پر مایوسی کا اظہار کیا۔

اس ملاقات کے دوران فلسطینی وفد میں شامل اراکین کی جانب سے سلائیڈز کی مدد سے یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ اسرائیل نے کس طرح ان کی سرزمین پر قبضہ کیا اور کس طرح وہ آہستہ آہستہ فلسطینی علاقوں تک اپنا دائرہ بڑھاتا رہا ہے اور اپنے اسی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے اس نے فلسطینیوں کو بالکل تنہا کردیا ہے۔

ہندوستانی وفد نےفلسطینیوں کو اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ وہ فلسطینیوں کے خدشات کو نمایاں اہمیت دیں گے۔

اس سے قبل وفد نے اسرائیل کی وزیر خارجہ سے جمعرات کو ملاقات کی اور یہ وفد اتوار کو اسرائیل کے صدر شمون پریز سے ملاقات کر رہا ہے۔

اسرائیل کی وزیر خارجہ نے بھارت سمیت بین الاقوامی برداری سے مشرق وسطی میں اعتدال پسند قوتوں کو مستحکم بنانے میں ساتھ دینے کی اپیل کی۔ ان کا کہنا تھا’ کہ اسرائیل امن کے لیے سمجھوتے کا خواہش مند ہے۔ ہم سمجھوتے کی ضرورت سے آگاہ ہیں۔ مذاکرات نہ صرف اسرائیل بلکہ فلسطینیوں اور ان کی قیادت کے لیے اہمیت کے حامل ہیں‘۔

اسرائیل مسلم دنیا میں خود کو تسلیم کروانے کے لیے کوششیں کرتا رہا ہے۔ غزہ کی پٹی سے اسرائیلی انخلاء پر پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اسرائیلی وزیر خارجہ سے ملاقات کی تھی جس کے بعد مذہبی گروہوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اس دباؤ کے نتیجے میں اسلام آباد کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کیے جانے کے امکانات ختم ہو گئے تھے۔

بھارتی مسلمانوں کا یہ اسرائیل کا دورہ امریکن جوئش کمیٹی اور آسٹریلیا اسرائیل جوئش افئیرز کونسل کے تعاون سے ترتیب دیا گیا ہے۔ یہودیوں کا بااثر گروہ چاہتا ہے کہ اس بات کا تاثر پیدا کیا جائے کہ اسرائیل مشرق وسطی میں دیرپا امن کے لیے مسلم دنیا کی کوششوں میں ان کا ساتھ دینے کا خواہش مند ہے۔

اے جے سی کے انٹرنشینل ڈائریکٹر ربی ڈیوڈ روزن کا کہنا تھا کہ یہ دورہ انتہائی اہم حکمت عملی کا حامل ہے اور اس دورے سے مسلم دنیا پر بڑے پیمانے پر اثرات مرتب ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وفد میں شامل افراد ہندوستان کے تمام شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے دو سو ملین مسلمانوں کی زندگیوں پر براہ راست اثر رکھتے ہیں۔

دورے کے دوران ہندوستانی مسلمانوں کا یہ وفد بین المذہبی بات چیت میں بھی حصہ لے گا۔ اسرائیل کی نمائندگی ان کے دو سرکردہ مذہبی رہنما کریں گے۔

اس سے قبل یہودی مذہبی رہنماؤں کے ایک وفد نے اس سال کے آغاز میں ایک بین المذہبی اجلاس میں شرکت کے لیے دہلی کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کو انڈیا اور پاکستان کے مذہبی شدت پسند گروہوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسرائیل کا دورہ کرنے والے وفد میں مولانا عمیر الیاسی، پیر خواجہ افضل نظامی کے علاوہ انڈیا میں بین المذہب ہم آہنگی فاؤنڈیشن کے صدر قاری حفظ الرحمن خان اور تین مسلمان صحافی بھی شامل ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی